Monday 27 October 2014

خلافت کے نعرے میں اتنی کشش کیوں ؟

News
           

خلافت کے نعرے میں اتنی کشش 

کیوں ؟

اس خلافت کے خلیفہ ابوبکر البغدادی خود ہوں گے
جون میں دولت اسلامیہ کے رہنما نے ایک ایسی خلافت کے قیام کا باقاعدہ اعلان کر دیا جو عراق اور شام کے کئی علاقوں پر مشتمل ہوگی اور اس خلافت کے خلیفہ ابوبکر البغدادی خود ہوں گے۔ ذیل کے مضمون میں ایڈورڈ سٹورٹن نے ابو بکر البغدادی کے اس اعلان کا تاریخی تناظر میں جائزہ لیا ہے اور دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ کیا آج بھی خلافت کے نظریے میں کوئی جان ہے یا نہیں۔
جب جون میں ابوبکر الغدادی نے خلافت کا اعلان کیا اور اپنے لیے خلیفہ کے لقب کا انتخاب کیا تو محسوس ہوا کہ انھوں نے دولت اسلامیہ کی اس شہرت کی تصدیق کر دی ہے کہ یہ تنظیم واقعی بڑائی کے خبط میں مبتلا ہے اور خود کو عہد رفتہ کی عظیم روایات کی امین سجھتی ہے۔
اپنے بیان میں ابوبکر البغدادی کا اصرار تھا کہ ان کے ہاتھ پر بیعت کرنا تمام مسلمانانِ عالم کی مذہبی ذمہ داری ہے۔ ان کے اس دعوے کو پورے مشرق وسطیٰ نے بری طرح رد کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کی تھی۔
لیکن کیا واقعی یہ سمجھنا کہ دولت اسلامیہ کے اعلان کی کوئی اہمیت نہیں ہے خاصا خطرناک ہو سکتا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ ابوبکر البغدادی کی بے رحم حکومت کا اس خلافت کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں جس کی تصویر مسلمانوں کے ذہن میں ہے، لیکن دولت اسلامیہ کے رہنما کے اعلان سے عراق و شام سے دور بیٹھے ہوئے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں ایک امنگ ضرور پیدا ہوئی ہے۔
مسلمانوں کی آخری خلافت، خلافت عثمانیہ تھی جسے ختم ہوئے اس موسمِ بہار میں 90 برس ہو چکے ہیں۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جب سنہ 2006 میں گیلپ کے ایک جائزے میں مصر، مراکش، انڈونیشیا اور پاکستان کے مسلمانوں سے پوچھا گیا تو ان میں سے دو تہائی نے اس خیال کی حمایت کی تھی کہ ’تمام اسلامی ممالک‘ کو ایک نئی خلافت کے پرچم تلے متحد ہو جانا چاہیے۔

RELATED POSTS