Thursday 18 December 2014

سانحہ پشاور ، دہشت گرد تنظیم نے نئی منطق دے دی

News
تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے سانحہ پشاور کو جائز ثابت کرنے کے لیے ایک اور ناقابل یقین منطق سامنے آ گئی ہے جس میں اس المناک سانحے کو مذہب کی روشنی میں درست اقدام ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق تحریک طالبان پاکستان مہمند ایجنسی کے امیر خالد خراسانی کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پشاور کا قتل عام مذہبی تعلیمات کے عین مطابق تھا۔بیان میں کہا گیا ہے کہ صرف بڑے بچوں کے قتل کا حکم دیا گیا تھا کیونکہ بنو قریظہ ( ایک یہودی قبیلہ ) کے قتال کے لیے بھی یہی حکم دیا گیا تھا کہ ان بچوں کو قتل کیا جائے جن میں بلوغت کے آثار دیکھے جا سکتے ہوں ۔یہ بھی کہا گیا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق بچوں اور عورتوں کا قتل جائز ہے اور اس کے ثبوت کے طور پر صحیح بخاری جلد پانچ، حدیث ایک سو اڑتالیس کا حوالہ دیا گیا ہے۔
اب ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ مذکورہ حدیث اصل میں کیا ہے ۔اس کا مفہوم مختصراًدرج ذیل ہے۔
صحیح بخاری، جلد پانچ ، حدیث 148 
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ ( بنو قریظہ کے یہودی ) حضرت سعد بن معاذؓ  کا فیصلہ ماننے کے لیے راضی تھے تو نبی کریم ﷺ نے انہیں بلا بھیجا ۔ آپ ﷺنے فرمایا ، اے سعدؓ ! یہ لوگ تمھارا فیصلہ ماننے پر راضی ہیں ۔سعدبن معاذؓ نے فرمایا ’ میرا فیصلہ ہے کہ ان کے جنگجوﺅں کو قتل کر دیا جائے اور ان کے بچوں اور خواتین کو قیدی بنا لیا جائے۔ ‘
مذکورہ بالا الفاظ سے واضح ہے کہ یہ فیصلہ دشمنان اسلام کے متعلق ہے اور اس حدیث مبارکہ میں صرف جنگجو مردوں کے قتل کا ذکر ہے جبکہ خواتین اور بچوں کے متعلق اس نوعیت کا ایک بھی لفظ نہیں ہے۔

RELATED POSTS