Friday 16 January 2015

جنرل راحیل شریف کی ڈپلومیسی، وزیرخارجہ کہاں ہیں؟

News
تجزیہ چودھری خادم حسین
پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خلاف باہمی تعاون سے جو جدوجہد شروع کی، اس کا دائرہ اب ملک گیرسطح سے بین الاقوامی حد تک بڑھا دیا گیا ہے۔ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل رضوان اختر نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کا دورہ کیا تو اب آرمی چیف جنرل راحیل شریف برطانیہ کے تین روزہ دورے پر ہیں۔ ہر دو کے پیش نظر دہشت گردوں کے راستے بند کرنا تھا اور ہے۔ جنرل راحیل شریف کی برطانوی وزیراعظم ڈیوڈکیمرون اور وزیرخارجہ کے علاوہ عسکری حکام سے ملاقاتوں کو بڑی اہمیت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ لندن سے موصول ہونے والی خبروں کے مطابق جنرل راحیل شریف نے برطانوی حکومت سے تعاون مانگا اور مطالبہ کیا ہے کہ برطانیہ سے پاکستان کے اندر مداخلت رکوائی جائے۔ اس سلسلے میں خصوصی طور پر کالعدم حزب التحریر اور بلوچ قوم پرستوں کا ذکر آیا، حزب التحریر جو خلافت کے نظام کی داعی ہے پاکستان میں کالعدم ہے لیکن برطانیہ میں باقاعدہ کام کررہی ہے۔ حزب اؒ لتحریر کے بارے میں یہ شواہد بھی ملے ہیں کہ پاکستان کے شہروں میں داعش کے حوالے سے وال چاکنگ اس تنظیم کے کارکنوں نے کی جبکہ برطانیہ میں مقیم بلوچ قوم پرست بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں کے ماسٹر مائنڈ ہیں، جو اب یقیناًمثبت ہے۔
جنرل راحیل شریف کا یہ دورہ طے شدہ ہے اور یقیناًیہ وزیراعظم محمد نوازشریف کے علم میں ہوگا تاہم یہاں تجزیہ نگار اسے مختلف معنی پہنا رہے ہیں اور سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ حکومت کی کمزوری سے معاملات تو جی ایچ کیو میں جانا ہی تھے، ان کے مطابق یہ فرائض حکومت کی وزارت خارجہ کے ہیں جو فوج اداکررہی ہے۔ ان کی یہ بات اس حد تک درست بھی ہے کہ ابھی تک وزیراعظم نے وزارت خارجہ کا چارج اپنے پاس رکھا ہوا ہے اور سرتاج عزیز بطور مشیر خارجہ امور دیکھ رہے ہیں اگر کسی اہل رکن کو وزیرخارجہ بنایا ہوتا تو یہ کام وہ کرلیتے تاہم وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کے بقول حکومت اور فوج ایک صفحہ پر ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان خبروں میں ہیں، ابھی ان کا دورہ پشاور اور آرمی سکول میں جانا ہی زیر بحث تھا کہ ان کی اہلیہ کا انٹرویو سامنے آ گیا جو برطانوی اخبار نے لیا اور ساتھ ہی متعلقہ ردعمل بھی شائع کر دیا۔ مسز ریحام خان نے اپنے انٹرویو میں الزام لگایا کہ مرد ذہنی طور پر تشدد پسند ہوتے ہیں اور ان کے سابق شوہر ڈاکٹر اعجاز رحمن ان پر گھریلو تشدد کرتے رہے ہیں، جوابی طور پر ڈاکٹر اعجاز رحمن نے تردید کی اور کہا یہ الزام ہے اور انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا ریحام خان کو مکمل آزادی حاصل تھی، اب یہ نیا مسئلہ ہے جو میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ بیگم عمران خان خود صحافی بلکہ اینکر ہیں، ان کو انٹرویو دیتے وقت محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت تھی ایسے امور میں الجھنے کی کوشش کیوں کی؟ اب تو ان کی نئی زندگی شروع ہوئی اور ایک سیاست دان کے ساتھ اگلا سفر ہے، یہاں ہر بات کی جواب دہی کرنا ہوتی ہے۔
حالات جو رخ اختیار کر رہے ہیں، اس سے عام تشویش پائی جا رہی ہے لیکن ایسا احساس ہوتا ہے کہ حکمران جماعت کے سامنے دہشت گردی کے سوا اور کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ وزیراعظم خود شاہ عبداللہ کی عیادت کے لئے دو روز کے لئے سعودی عرب چلے گئے ان کے پیجھے لوگ دہشت گردوں کو تلاش کررہے ہیں اور حفاظتی انتظامات میں مصروف ہیں۔ فاٹا کے گیارہ اراکین پارلیمنٹ ناراض ہو گئے۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنی جماعت کی جنرل کونسل کا اجلاس بلا لیا ہے جو کل (17جنوری) کو ہوگا، تحریک انصاف کا پہلا کنونشن اس سے اگلے روز ہے جبکہ پاکستان عوامی تحریک بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے کل (17جنوری) ہی یوم احتجاج منا رہی ہے، ملک میں پٹرول کی قلت ہو گئی پٹرول پمپ بند ہیں اور جن کے پاس ہے وہاں لمبی لمبی قطاریں دیکھنے کو مل رہی ہیں، بجلی کی لوڈشیڈنگ بڑھ گئی ٹرپنگ مسلسل مرض ہے جبکہ گیس کی قلت بھی زیادہ ہو گئی ہے، حکمران اس بارے میں بیان بازی سے آگے عمل کرتے نظر نہیں آ رہے، اب تو لوگ کہتے ہیں کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بہتر تھے کہ دباؤ آتا تو آئی پی پیز کو ادائیگی کروا دیتے ، پی ایس او کا معاملہ بھی اسی طرح درست کرتے، یہاں اسحاق ڈار زرمبادلہ کے ذخائر بڑھا رہے ہیں۔ ان کو ان امور کی فکر نہیں، یہ کچھ بہتر عمل نہیں، آئندہ حالات خراب ہو سکتے ہیں۔

RELATED POSTS