Friday, 31 October 2014

پاکستان میں فالج سے روزانہ 400 افراد کی موت

News

پاکستان میں فالج سے روزانہ 400 افراد کی موت

ڈاکٹر
امریکا اور یورپ میں پینتالیس سال سے کم عمر کے لوگوں میں فالج کی شرح دس فیصد ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح بیس سے پچیس فیصد ہے
پاکستان میں فالج کے علاج کے لیے کام کرنے والی پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں فالج سے روزانہ کم از کم چار سو افراد کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق اس مرض میں ایک اور رجحان سامنے آیا ہے کہ خواتین خصوصاً جوان خواتین اِس مرض سے بڑی تعداد میں متاثر ہو رہی ہیں۔
پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی کا کہنا ہے کہ پاکستان دنیا کی چھٹی بڑی آبادی والا ملک ہے جس میں دو فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔
یہاں تینتیس فیصد آبادی کی عمر پینتالیس سال سے اوپر ہے جو کہ ہائپرٹینشن یا ذیابیطس کا شکار ہے یا پھر تمباکو نوشی کی عادت میں مبتلا ہے اور یہی عادت یا علامات سٹروک کے خطرے کو بڑھا دیتی ہیں۔
پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی کے صدر اور آغا خان میڈیکل یونیورسٹی میں پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع نے بتایا کہ ’امریکا اور یورپ میں پینتالیس سال سے کم عمر کے لوگوں میں فالج کی شرح دس فیصد ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح بیس سے پچیس فیصد ہے اور یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارے ورلڈ سٹروک آرگنائزیشن نے اِس سال کو خواتین میں سٹروک سے منسوب کیا ہے اور اس پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔
خواتین میں اِس مرض کی وجہ یہ ہے کہ خواتین میں تمباکو کا استعمال بڑھ رہا ہے گو کہ خواتین میں تمباکو نوشی کی شرح تین فیصد ہے لیکن دیگر صورتوں میں اِس کے استعمال مثلاً شیشے پینا اور پان کھانے کی صورت میں خواتین تمباکو کو زیادہ مقدار میں استعمال کر کے فالج کا کم عمری ہی میں شکار ہو رہی ہیں۔‘
سعودی عرب میں تین دہائی تک سٹیشنری کے کام سے وابستہ غلام محی الدین پاکستان آئے تو چند دن قبل اُن پر فالج کا حملہ ہوا۔ غلام محی الدین کہتے ہیں اُنہیں اِس سے قبل بلند فشارِ خون کی شکایت تھی۔
اکثر سگریٹ نوشی اور ہائی بلڈ پریشر سٹروک کی وجہ بنتے ہیں
’میں نے کبھی سگریٹ نہیں پی لیکن ہاں مجھے ہائی بلڈ پریشر کی شکایت تھی تو میں نے ڈاکٹروں کے کہنے پر نمک کم کر دیا تھا لیکن پھر جب میں پاکستان آگیا تو چند ہی دن بعد صبح نماز کے وقت میرا اچانک سر چکرانے لگا اور میں واش روم سے کمرے تک نہیں آسکا، گھر والے سہارا دے کر لائے۔ اب میرا بایاں بازو کام نہیں کر رہا اور مجھے چیزیں بھی اُس طرح نہیں یاد جیسے پہلے ہوا کرتی تھیں۔‘
پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی کے صدر محمد واسع کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہر دس سیکنڈ میں ایک انسان فالج کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔ اِس مرض میں شریانوں میں خون کا لوتھڑا جم جانے سے جب خون کا دباؤ بڑھتا ہے تو مریض پر فالج کا حملہ ہوتا ہے اور ایک صحت مند انسان فوری طور پر مفلوج ہو کر بستر سے لگ جاتا ہے۔
پاکستان میں دیگر بیماریوں کے مقابلے میں فالج سے ہونی والی اموات کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر واسع کا کہنا تھا کہ ’پوری دنیا میں سب سے زیادہ اموات ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہوتی ہیں اُس کے بعد فالج اور تیسرے نمبر پر کینسر سے لیکن ترقی پزیر ممالک میں زیادہ تر اموات فالج کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اگر ہم معذوری کے تناظر میں دیکھیں کہ وہ بیماریاں جن سے معذوری ہوتی ہے تو اُن میں فالج اول نمبر پر ہے اور بیماری اور معذوری دونوں کے تناظر میں فالج دنیا بھر میں سب سے زیادہ خطرناک مرض ہے۔‘
سٹروک کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مشینی دور میں جسمانی مشقت نہ کرنے والے لوگ جب ورزش نہیں کرتے اور ایک جامد قسم کی زندگی گزارتے ہیں تو یہ فالج کے لیے آسان ہدف ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ زیادہ چکنائی والے گھی کا استعمال بھی کرتے ہیں جو اس بیماری کی وجوہات میں شامل ہیں۔
سٹروک کے نوے فیصد سےذیادہ کیسز میں چار اہم علامات ظاہر ہوتی ہیں جن میں بازو اور ٹانگوں میں شدید کمزوری محسوس ہونا، زبان میں لڑکھڑاہٹ یا بول نہ پانا، دیکھ نہ پانا یا بے ہوشی شامل ہے

RELATED POSTS