Sunday, 9 November 2014

امریکیوں کی نیندیں حرام کرنے والے منشیات کے بے تاج بادشاہ کی غضبناک کہانی

News

امریکیوں کی نیندیں حرام کرنے والے منشیات کے بے تاج بادشاہ کی غضبناک کہانی

    بوگوٹا(نیوزڈیسک)آپ نے متعدد فلموں میں ایسے کردار لازماًدیکھے ہوں گے کہ جو کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ جب چاہیں کسی کا قتل کر دیں، حکومتوں کو گرا دیں یا پھر کسی کو بھی تباہ و بر باد کردیں۔ دیکھنے میں ایسے کردار خیالی لگتے ہیں لیکن آج ہم آپ کو ایک ایسے شخص کی حقیقی کہانی سنائیں گے جس نے ناصرف پو ری دنیا کی نیندیں حرام کر کے رکھیں بلکہ امریکہ کو بھی ناکوں چنے چبوادئیے۔یہ شخص کولمبیا کا مشہور ڈرگ لارڈ پابلو امیلو ایسکوبار گویریا تھا اور اسے لوگ ’پابلو ایسکوبار‘ کے نام سے جانتے ہیں۔اس کی زندگی پر ہالی ووڈ میں کئی فلمیں بھی بنی ہیں۔
     اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے دنیا کا سب سے خطرناک گینگ بنا کر حکومت کی۔ اپنے دور میں یہ شخص اس قدر طاقتور تھا کہ جب چاہتا کسی کو بھی قتل کروا دیتا، جہاں چاہتا منشیات پہنچا دیتا اور اس مقصد میں کسی کو بھی حائل نہ ہونے دیتا۔ اگر کوئی حکومت اسے روکنے کی کوشش کرتی تو یہ اسے بھی نہ بخشتا۔اس نے اربوں ڈالرز کما کر اپنی عظیم الشان سلطنت بنا رکھی تھی جس میں جہاز، محلات و ملازمین اور اپنی پرائیویٹ آرمی بھی شامل تھی۔
    ابتدائی سال
    یسکو بار کولمبیا کے ایک متوسط خاندان کے گھر یکمدسمبر 1949ءکو میڈیلین میں پیدا ہوااور شروع ہی سے کچھ بڑا کرنا چاہتا تھا۔ یہ اکثر اپنے دوستوں اور خاندان کے افراد کو کہتا تھا کہ میں کولمبیا کا صدر بنوں گا۔ اس نے اپنی عمل زندگی کا آغاز ایک گلی کے چور کے طور پر کیا اور قبروں کے کتبے چوری کرتا، ان پر سے نام مٹا کر انہیں ہمسایہ ملک کے نوسربازوں کو بیچ دیتا۔اس کے بعد اس نے گاڑیوں کی چوری شروع کی اور آہستہ آہستہ منشیات کے کاروبار سے منسلک ہو گیا۔وہ بولیویا اور پیرو نے کوکا پیسٹ خرید کر اسے صاف کرتا اور امریکہ میں سمگل کردیتا۔
    طاقت کی طرف سفر کا آغاز
    کہا جاتا ہے کہ 1975ءکے وسط میں میڈیلین کے ایک مقامی منشیات کا سمگلر کو ایسکوبار نے قتل کرواکر اس کے گینگ پر قبضہ کیا اور اپنے منشیات کے کام کو وسیع کیا۔اس سے قبل امریکہ کو سمگل کی جانے والی منشیات میں 80فیصد کام ایسکوبار کے ہاتھ میں تھا۔ اب منشیات کے کاروبار کے ساتھ اس نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا اور اپنے اثرورسوخ اور دولت کی بدولت 1982ءمیں وہ کولمبیا کی اسمبلی کا ممبر بن گیا۔
    پیسہ یا گولی
    یہ بات زبان زد وعام تھی کہ ایسکوبار اپنے راستے میں کسی کو حائل نہ ہونے دیتا۔ اگر کسی جج، سیاستدان یا افسر سے اسے کام ہوتا تھا تو وہ انہیں رشوت دے کر کام کروانے کی کوشش کرتا اور اگر کوئی رشوت سے انکار کرتا تو وہ انہیں سرعام قتل کرو ادیتا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہر آدمی کی کوئی قیمت ہوتی ہے اور اگر کسی کی کوئی قیمت نہیں تو پھر وہ موت کا حقدار ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس کے ظلم کا شکار بننے والے سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے اور بعض اوقات تو وہ مرنے والوں کے خاندان کو بھی نہ بخشتا تھا۔
    اس کے بارے میں مشہور تھا کہ اگر وہ کسی کو راستے سے ہٹانے کا سوچ لیتا تو چاہے وہ شخص کتنا بھی طاقتور ہوتا اسے وہ مار کر رہتا۔ یہ بات بھی بتائی جاتی ہے کہ وہ 1985ءمیں کولمبیا کی سپریم کورٹ پر حملہ میں بھی ملوث تھا جس میں کئی جج بھی مارے گئے تھے جبکہ ایک اور واقعہ میں اس نے صدارتی امیدوار کو بھی موت کے گھاٹ اتار نے کی کوشش کی۔27نومبر 1989ءکو اس نے ایک ہوائی جہاز میں بم رکھوا کر ایک صدارتی امیدوار کو مروانے کی بھی کوشش کی لیکن وہ بچ نکلا لیکن بد قسمتی سے اس جہاز میں سوار 110لوگ اپنی جان سے گئے۔غرض کہ جو بھی اس کے راستے میں حائل ہوتا وہ اسے مروا دیتا۔
    عروج
    1980ءکے وسط میں وہ دنیا کے طاقتور ترین انسانوں کی فہرست میں شامل ہو چکا تھا ۔ فوربس میگزین نے اس کا ذکر دنیا کے سات امیر ترین انسانوں میں کیااور اس وقت تک اس کی دولت 24ارب ڈالر ہو چکی تھی۔ 1976ءمیں جب وہ اس دھندے میں نیا تھا تو وہ اور اس کے ساتھی ایکواڈور سے واپس آرہے تھے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ایسکوبار نے ان تمام افسران کو قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ جب بھی کو ئی ایسی کوشش کی جاتی جس میں ایسکوبار کے اقتدار کو خطرہ ہوتا تو وہ ہر بار بچ جاتا لیکن اب ہمسایہ ملک امریکہ اس کی منشیات کی سمگلنگ سے بہت زیادہ خوفزدہ تھا ۔
    زوال اور موت
    امریکہ کی جانب سے کولمبیا کی حکومت پر دباﺅ میں شدید اضافہ ہو رہا تھا اور 1991ءمیں کولمبیا کی حکومت اور ایسکوبار کے وکلاءنے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی گرفتاری دے دے گا اور اسے انتہائی عالیشان جیل میں رکھا جائے گا۔ آخر وہ دن آیا جب اس نے اپنی گرفتاری دی اور اسے ایک عالیشان محل نما جیل ’لا کیتھڈرل‘میں منتقل کردیا گیاجہاںجکوزی، آبشاریں، فٹ بال کا میدان اور غرض کہ ہر طرح کا سامان تعیش موجود تھا۔اس جیل میں کسی بھی دوسرے قیدی کو نہیں رکھاجاسکتا تھا۔اسے یہ سہولت بھی موجود تھی کہ وہ اپنے ذاتی گارڈ بھی رکھ سکتا تھااور یہیں سے بیٹھ کر وہ اپنا غیر قانونی دھندہ بھی چلا رہا تھا۔پھر یہ بات بھی سامنے آئی کہ جولائی 1992ءمیں اس کے پاس ’لاکیتھڈرل‘کی جیل میں ایسے لوگ لائے گئے جنہوں نے ایسکوبار کے ساتھ غداری کی تھی اور اس نے انہیں وہیں تشدد کے بعد قتل کردیا۔ اب بات حد سے زیادہ بڑھ چکی تھی لہذا کولمبیا کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ اسے عام جیل میں منتقل کردیا جائے گا۔ اس خوف سے ایسکو بار نے جیل سے فرار ہونے کا فیصلہ کیا اور کہیں نامعلوم جگہ پر چھپ گیا۔ 
    ایسکو بار کو تلاش کرنے والے دو گروہ ، امریکی سپیشل فورس اور اس کے دشمن اسے ہر طرف ڈھونڈ رہے تھے ۔2دسمبر 1993ءکو اس کے ٹھکانے کا علم ہوا اور تمام فورسسز اس کے خلاف ایکشن کے لئے مذکورہ جگہ پہنچ گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ فورسسز اور ایسکوبار کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور اس کے نتیجے میں وہ مارا گیاجبکہ یہ بات بھی مشہور ہے کہ اس نے خودکشی کی۔ 
    دریا دلی یا دھوکہ
    ناجائز کاروبار کرنے والے دوسرے افراد کی طرح ایسکوبار کے بارے میں بھی یہ بات مشہور ہے کہ وہ اپنے علاقے میں بہت دریا دل تھااور متعدد سکولوں، چرچوں، سٹیڈیم اور پارک بنوانے کے لئے کثیر سرمایہ دیا کرتا تھا۔ اسی طرح وہ غریبوں اور مساکین میں بہت پیسہ بانٹتا تھا۔اس کے مخالفین کہتے ہیں کہ یہ ایک دھوکہ بازی تھی اور حقیقت میں وہ بہت ظالم انسان تھا۔

      RELATED POSTS