Tuesday 28 October 2014

امریکی ٹی وی اداکارہ منڈی کالنگ کو ملالہ یوسفزئی سمجھ لیاگیا

News

امریکی ٹی وی اداکارہ منڈی کالنگ کو ملالہ یوسفزئی سمجھ لیاگیا

     نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک )ایک تقریب میں امریکی ٹی وی اداکارہ منڈی کالنگ کو ملالہ یوسف زئی سمجھ لیا گیا۔امریکی میڈیا کے مطابق بھارتی نژاد امریکی ٹی وی اداکارہ منڈی کالنگ کو ایک تقریب کے دوران ایک شخص نے ملالہ سمجھتے ہوئے ان کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے اور اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ کتنی جلدی وہ گولیاں لگنے کے بعد صحت یاب ہوئی ہیں۔ منڈِی کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات سے خوشی ہوئی کہ انہیں ملالہ یوسف زئی سمجھا گیا۔اپنے ایک ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ ”یہ ان کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ انہیں ملالہ سمجھا گیا“۔

    بیداری میں حضورﷺ کے دیدارکا دعویدار گرفتار

    News

    بیداری میں حضورﷺ کے دیدارکا دعویدار گرفتار

      ریاض (مانیٹرنگ ڈیسک) مدینہ منورہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم بیداری میں دیکھنے اور آپﷺ سے دیر تک گفتگوکرنے کے دعوے دار ’فراڈیئے ‘کو سعودی عرب کی مذہبی پولیس نے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حراست میں لیا ہے،ملزم نے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کا اعتراف جرم کرلیا۔ 
      عرب میڈیا کے مطابق پولیس کے ترجمان ترکی الشلیل نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ’ٹیوٹر‘ پر بتایا کہ روضہ رسولﷺ سے کچھ لوگوں کو ایک شخص کی تصویر اٹھائے دیکھا گیا جس کے بارے میں لوگوں نے دعویٰ کیاکہ اس نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا حالت بیداری دیدار کیا ہے۔ تصویر کی روشنی میں اس شخص کی تلاش کی گئی تو وہ مل گیا۔مذکورہ شخص نے دعویٰ کیا کہ اُس نے حالت بیداری میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات اور بات چیت کی اوراپنی جاگتی آنکھوں سے ہرطرف موجود دیکھا۔
      گرفتار شخص نے دعویٰ کیا کہ بعض زائرین بھی حضور سے ملاقات اور بات کر رہے ہیں، آنحضور ﷺکے چچا حضرت حمزہ کے مرقد کی بھی زیارت کی اور شہر انقوش سے آئی خاتون نے حضرت فاطمہ الزھراءرضی اللہ عنہا کی زیارت کی تھی۔ طویل مدت کے بعد اس کی ملاقات اس خاتون سے دوبارہ ہوئی تو اس نے بتایا کہ حضرت فاطمہ میرے ساتھ ہوتی ہیں۔
      پولیس ترجمان نے کہا کہ لوگوں کی تصاویر کا ایک البم اٹھائے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عالم بیداری میں ملاقات کے دعوے دار شخص کو غلط عقائد کی ترویج کے الزام میں حراست میں لیا گیا ۔ دوران تفیش ملزم نے اپنی غلط بیانی کا اعتراف کیا اور کہا ہے کہ وہ محض لوگوں کو گمراہ کرنے کی غرض سے ایسا کرتا رہا ہے۔

      لندن واقعہ کے ذمہ دار بیرسٹر سلطان محمود ، میرا کوئی کردار نہیں ہے : حسن نیازی

      News                                      

      لندن واقعہ کے ذمہ دار بیرسٹر سلطان محمود ، میرا کوئی کردار نہیں ہے : حسن نیازی

      لندن واقعہ کے ذمہ دار بیرسٹر سلطان محمود ، میرا کوئی کردار نہیں ہے : حسن نیازی



      لندن، اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔28اکتوبر 2014ء) تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے بھانجے حسن نیازی نے کہا ہے کہ لندن کے واقعے میں بلاول بھٹو زرداری کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ واقعے کے اصل ذمہ دار بیرسٹر سلطان محمود ہیں۔ایک نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے حسن نیازی کا کہنا تھا کہ ملین مارچ کے منتظمین کو بتایا گیا کہ بلاول بھٹو زرداری ملین مارچ سے خطاب کریں، بعد میں ان کے نہ آنے کا اعلان کیا گیا جس سے لوگوں میں مایوسی پھیل گئی ،اس کے بعد اچانک جب بلاول سٹیج پر آئے تو مائیک سے جئے بھٹو کے نعرے لگائے گئے۔ سٹیج سے سیاسی نعرے لگنے پر نیچے کھڑے کچھ لوگوں نے نوازشریف زندہ باد کے نعرے لگائے جس سے ملین مارچ کا ماحول کشمیر کاز سے زیادہ پاکستان کا سیاسی منظر نامہ پیش کرنے لگا۔ان کا کہنا تھا کہ سٹیج کے قریب کھڑے بعض لوگوں نے گوبلاول گو کے نعرے لگائے، ہنگامہ آرائی اور سٹیج پر بوتلیں، انڈے ٹماٹر پھینکنے میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے۔ ان کا مقصد کسی پر ٹماٹر اور بوتلیں پھنکوانا ہرگز نہیں تھا، ان کی گرفتاری پر میرے گھر والوں اورعزیزو اقارب کو دکھ پہنچا ہے ۔

      جمعیت علماءاسلام ف نے وزیر داخلہ کے استعفٰی کا مطالبہ کر دیا

      News

      جمعیت علماءاسلام ف نے وزیر داخلہ کے استعفٰی کا مطالبہ کر دیا

        پشاور ( مانیٹرنگ ڈیسک ) حکومتی اتحادی جماعت جمعیت علماءاسلام ف نے وزیر داخلہ کے استعفٰی کا مطالبہ کر دیا۔ترجمان جے یو آئی ف حافظ حسین احمد نے میڈیا کو اپنی پارٹی موقف سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ جمعیت علماءاسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پر ہونے والے خودکش حملے کی ابھی تک رپورٹ نہیں آ سکی جو وزارت داخلہ کی ناکامی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وزارت داخلہ ابھی تک حملے کا سراغ نہیں لگا سکی نہ ہی کیس میں کوئی پیشرفت ہوئی ہے۔ دوسری جانب وزیر داخلہ کی جانب سے ایک مذمتی بیان تک نہیں آیا۔ان وجوہات کی بناءپر جمعیت علماءاسلام کی جانب سے وزیر اعظم سے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے استعفٰی کا مطالبہ کیا گیا۔

        Monday 27 October 2014

        طاہر القادری بیرون ملک دورے پر روانہ

        News

        طاہر القادری بیرون ملک دورے پر روانہ

        ۔۔اپنا زیادہ وقت امریکہ میں گزاریں گےجہاں وہ اپنی جماعت کی تنظیم سازی کریں گے
        پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے بیرون ملک جانےکا اعلان کیا ہے۔
        پیر کی شام لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب میں طاہرالقادری نے بتایا کہ’ آج شب بیرون ملک جا رہا ہوں۔‘ انھوں نے بتایا کہ وہ نومبر کے وسط میں وطن لوٹیں گے۔
        ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنا زیادہ وقت امریکہ میں گزاریں گے جہاں وہ اپنی جماعت کی تنظیم سازی کریں گے۔ 13 نومبر کو امریکہ سے کینیڈا جائیں گے جبکہ 16 نومبر کو پاکستان واپس لوٹیں گے ۔
        یاد رہے کہ عوامی تحریک کے سربراہ نے 14 اگست کو لاہور سے اسلام آباد ک جانب انقلاب مارچ کا آغاز کیا تھا ان کا دعویٰ تھا کہ وہ ملک کا نظام ختم کر دیں گے۔
        تاہم اسلام آباد میں 60 سے زائد دن تک دھرنا دینے کے بعد سیاست میں آنے اور دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
        طاہرالقادری کا کہنا ہے کہ وہ سانحہ لاہور اور اس کے بعد دھرنے کے دوران اسلام آباد میں ہلاک ہونے والے کارکنان کے قتل کے بدلے قصاص نہیں لیں گے بلکہ قتل کا بدلہ قتل ہوگا۔
        عوامی تحریک کے سربراہ کا دعویٰ ہے کہ حکومت سے مذاکرات تو ہوئے ہیں تاہم کسی قسم کی کوئی ڈیل نہیں ہوئی۔
        دھرنے کے بعد عوامی تحریک پاکستان کے مختلف شہروں میں جلسوں کا آغاز کر چکی ہے تاہم محرم الحرام کے باعث طاہرالقادری نے فی الحال اس سلسلے کو بند کیا۔
        دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ نے کہا ہے کہ طاہرالقادری کی جانب سے دھرنا ختم کرنے پر انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اب عوام متحرک ہوگئی ہے۔

        ’نیوز چینل بند کرانے پر ایم کیو ایم معافی مانگے‘

        News
             

        ’نیوز چینل بند کرانے پر ایم کیو ایم معافی مانگے‘

        ’ایم کیو ایم کے سربراہ اس واقعے کا فوری نوٹس لیں اور معافی مانگیں‘
        پاکستان میں صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم نے الزام عائد کیا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ نے کراچی میں دو دن پہلے چھ گھنٹے تک تمام نیوز چینل بند کرائے تھے اور ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین اس پر معافی مانگیں۔
        پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلٹس کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں ایم کیو ایم کے اس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے جماعت اور اس کے سربراہ الطاف حسین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صحافتی برادری سے معافی مانگیں۔
        پی ایف یو جے کے سیکریٹری جنرل خورشید عباسی کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کو 24 گھنٹے کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کہا گیا:
        ’صحافتی برادری سے فوری معافی نہ مانگی اور آئندہ ایسا رویہ اختیار نہ کرنے کی یقین دہانی نہ کروائی تو ان (الطاف حسین) کے خلاف پورے ملک میں احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی۔‘
        پی ایف یو جے کے مطابق نجی ٹی وی چینلوں کو جبری طور پر بند کرایا گیا جس پر پورے ملک کی صحافتی برادری سراپا احتجاج ہے۔
        بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اگر ایم کیو ایم اور اس کے قائد نے فوری نوٹس نہ لیا اور آئندہ ایسے کسی بھی فعل کو نہ کرنے کی یقین دہانی نہ کروائی تو پورا ملک کا میڈیا ان کے خلاف سراپا احتجاج ہو گا اور ایم کیو ایم کی تقریبات کا بائیکاٹ کیا جائے گا، اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک معافی نہیں مانگی جاتی۔‘
        واضح رہے کہ سنیچر کو کراچی کے بعض علاقوں میں نیوز چینل چند گھنٹوں کے لیے بند ہو گئے تھے۔ اس وقت سندھ حکومت کے وزیرِ اطلاعات شرجیل میمن نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ مافیا کی جانب سے کیبل آپریٹروں کو نیوز چینلوں بند کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
        انھوں نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ حکومت تمام کیبل آپریٹروں کو سکیورٹی فراہم کرے گی۔

        خلافت کے نعرے میں اتنی کشش کیوں ؟

        News
                   

        خلافت کے نعرے میں اتنی کشش 

        کیوں ؟

        اس خلافت کے خلیفہ ابوبکر البغدادی خود ہوں گے
        جون میں دولت اسلامیہ کے رہنما نے ایک ایسی خلافت کے قیام کا باقاعدہ اعلان کر دیا جو عراق اور شام کے کئی علاقوں پر مشتمل ہوگی اور اس خلافت کے خلیفہ ابوبکر البغدادی خود ہوں گے۔ ذیل کے مضمون میں ایڈورڈ سٹورٹن نے ابو بکر البغدادی کے اس اعلان کا تاریخی تناظر میں جائزہ لیا ہے اور دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ کیا آج بھی خلافت کے نظریے میں کوئی جان ہے یا نہیں۔
        جب جون میں ابوبکر الغدادی نے خلافت کا اعلان کیا اور اپنے لیے خلیفہ کے لقب کا انتخاب کیا تو محسوس ہوا کہ انھوں نے دولت اسلامیہ کی اس شہرت کی تصدیق کر دی ہے کہ یہ تنظیم واقعی بڑائی کے خبط میں مبتلا ہے اور خود کو عہد رفتہ کی عظیم روایات کی امین سجھتی ہے۔
        اپنے بیان میں ابوبکر البغدادی کا اصرار تھا کہ ان کے ہاتھ پر بیعت کرنا تمام مسلمانانِ عالم کی مذہبی ذمہ داری ہے۔ ان کے اس دعوے کو پورے مشرق وسطیٰ نے بری طرح رد کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کی تھی۔
        لیکن کیا واقعی یہ سمجھنا کہ دولت اسلامیہ کے اعلان کی کوئی اہمیت نہیں ہے خاصا خطرناک ہو سکتا ہے؟
        اس میں کوئی شک نہیں کہ ابوبکر البغدادی کی بے رحم حکومت کا اس خلافت کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں جس کی تصویر مسلمانوں کے ذہن میں ہے، لیکن دولت اسلامیہ کے رہنما کے اعلان سے عراق و شام سے دور بیٹھے ہوئے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں ایک امنگ ضرور پیدا ہوئی ہے۔
        مسلمانوں کی آخری خلافت، خلافت عثمانیہ تھی جسے ختم ہوئے اس موسمِ بہار میں 90 برس ہو چکے ہیں۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جب سنہ 2006 میں گیلپ کے ایک جائزے میں مصر، مراکش، انڈونیشیا اور پاکستان کے مسلمانوں سے پوچھا گیا تو ان میں سے دو تہائی نے اس خیال کی حمایت کی تھی کہ ’تمام اسلامی ممالک‘ کو ایک نئی خلافت کے پرچم تلے متحد ہو جانا چاہیے۔

        ’نئے پاکستان کے لیے تھوڑا پاگل پن ضروری ہے

        News

        ’نئے پاکستان کے لیے تھوڑا پاگل پن ضروری ہے

        اصل مسئلہ سیاسی عدم استحکام ہے جس کی ذمہ داری ان جماعتوں پر عائد ہوتی ہے جو دھرنے دیے بیٹھی ہیں: نواز شریف
        پاکستان کے وزیرِاعظم نواز شریف نے عمران خان سے احتجاجی سیاست ترک کر کے ملکی اقتصادی ترقی میں کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔
        انھوں نے یہ اپیل پیر کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی سرمایہ کاروں کی کانفرنس کے افتتاح کے موقعے پر کی۔
        جب نواز شریف اس کانفرنس سے خطاب کر کے باہر نکلے تو سرمایہ کاروں اور صحافیوں نے بھی ان سے سکیورٹی کے حالات کے بارے میں سوالات کیے۔
        وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ سکیورٹی معاملات کا حل تو فوج کے ذریعے شمالی وزیرستان میں آپریشن کے ذریعے نکالا جا رہا ہے لیکن ملک کا اصل مسئلہ ’عمران خان کا دھرنا ہے جس کی وجہ سے ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔‘
        انھوں نے کہا: ’پاکستان کے بارے میں دنیا بھر میں مثبت تاثر پیدا ہوا تھا جسے اس سیاسی احتجاج نے خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں ملوث لوگ خدارا ایسا کرنے سے بعض آجائیں اور ملک کو آگے بڑھنے دیں۔‘

        قطر کی دولتِ اسلامیہ کو امداد فراہم کرنے کی تردید

        News
             

        قطر کی دولتِ اسلامیہ کو امداد فراہم کرنے کی تردید

        قطر ستمبر سے شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف قائم ہونے والے امریکی اتحاد کا حصہ ہے
        قطر کے اعلیٰ حکام نے سختی کے ساتھ ان الزامات کی تردید کی ہے کہ ان کا ملک شام میں دولت اسلامیہ جیسی کسی بھی دہشت گرد تنظیم کی مدد کر رہا ہے۔
        تاہم قطری حکام نے معتدل جنگجوؤں کی امداد کا اعتراف کیا ہے۔
        قطر کے حکام نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور دوسری مغربی اور عرب انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ مل کر صرف معتدل جنگجوؤں کو امداد دی ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے کہا کہ مالی تعاون پر سختی کے ساتھ کنٹرول جاری ہے۔
        یہ معلومات قطر کے حکمراں شیخ تمیم بن حمد الثانی کے اس ہفتے برطانوی دورے سے قبل سامنے آئی ہیں۔
        رواں ماہ کے اوائل میں برطانیہ کے بہت سے ارکانِ پارلیمان نے قطر کے ساتھ برطانیہ کے قریبی تعلقات کے بارے میں سوال اٹھائے تھے۔
        سنہ 2012 میں شام کے متعلق پالیسی کی ذمہ داری جب قطر کی انٹیلیجنس لی اس کے بعد سے مالی کنٹرول لایا گیا ہے اور کئی مشتبہ مالی امداد کرنے والوں کو گرفتار کیا گیا ہے
        بی بی سی کے نمائندے فرینک گارڈنر کا کہنا ہے کہ قطر، جو برطانیہ میں سرمایہ کاری کرنے والا اہم ملک ہے، ان الزامات پر غصے اور ناراضی کا اظہار کر رہا ہے۔
        قطر کے امیر افراد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ماضی میں شام میں جنگجوؤں کی امداد کی ہے جبکہ حکومت نے اس سخت گیر اسلامی گروہ کو رقم اور ہتھیار فراہم کیے تھے۔
        قطر کے بارے میں یہ خیال بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس کے القاعدہ سے منسلک جماعت النصرت فرنٹ سے روابط ہیں۔
        لیکن قطر کی انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر سمیت دیگر حکام کا کہنا ہے کہ قطر کے پاس شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑنے والی جماعتوں کی حمایت کے متعلق کوئی ایسی چیز نہیں جسے چھپایا جا سکے۔
        امریکی حملوں کے بعد دولت اسلامیہ کی پیش رفت تھم گئی ہے
        حکام کا یہ بھی کہنا ہے کی شام کی خانہ جنگ میں مستقل تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں اور پہلے جو شخص یا گروہ معتدل تھا بعد میں وہ سخت گیر اسلام پسند گروہ میں شامل ہو گیا۔
        ان کا کہنا ہے کہ سنہ 2012 میں شام سے متعلق پالیسی کی ذمہ داری جب قطر کی انٹیلی جنس نے سنبھالی ہے، اس کے بعد سے مالیاتی نظم و ضبط لاگو کیا گیا ہے اور شدت پسندوں کو مالی امداد کرنے والے کئی مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
        واضح رہے کہ قطر ستمبر سے شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف قائم ہونے والے امریکی اتحاد کا حصہ ہے اور قطر کے العدید ہوائی اڈے پر واقع امریکہ کے اہم فوجی اڈے سے دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائیوں کی نگرانی کی جا رہی ہے۔

        دنیا کے غریب ترین صدر کی تقلید ممکن نہیں

        News

        دنیا کے غریب ترین صدر کی تقلید ممکن نہیں

        ہوزے موہیکا نے آئین میں دو مرتبہ کی پابندی کی وجہ سے صدارتی الیکشن میں حصہ نہیں لیا
        یوروگوائے میں اتوار کو نئے صدر کے لیے انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں جو بھی امیدوار کامیاب ہوا اس کے سامنے ایک ایسی مثال ہو گئی جس کی تقلید کرنا مشکل ہی ناممکن ہو گا۔
        یوروگوائے کے آئین کے مطابق مسلسل دوسری مرتبہ صدر کے انتخاب میں حصہ لینے پر پابندی کی وجہ سے موجودہ صدر ہوزے موہیکا کو عنان اقتدار نئے صدر کے حوالے کرنا پڑے گا۔ جوناتھن گلبرٹ نےان کی زندگی پر نظر ڈالی ہے اور اس بات کا بھی جائزہ لیا ہے کہ ہوزے موہیکا کو ملک کے اندر اور ملک کے باہر کس طرح یاد رکھا جائے گا۔
        ہوزے موہیکا کی زندگی کسی صدر کی سوانح حیات سے زیادہ کسی دیومالائی فلم کا سکرپٹ لگتی ہے۔
        سنہ 60 اور 70 کی دہائی میں جب وہ گوریلا گروہ ’ٹمپاماروس‘ کے ساتھ گوریلا جنگ لڑے رہے تھے تو ایک موقعے پر پولیس کے ساتھ مڈ بھیڑ میں انھیں چھ گولیاں لگیں لیکن وہ بچ گئے۔
        ہوزے موہیکا انتہائی سادہ زندگی بسر کرتے ہیں
        گوریلا جنگ کے دوران وہ چار مرتبہ گرفتار ہوئے اور دو مرتبہ وہ زیر زمین سرنگوں کے ذریعے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ ایک مرتبہ قیدیوں نے اندر سے سرنگ کھودی تھی اور دوسری مرتبہ ان کے ساتھیوں نے باہر سے سرنگ بنائی تھی۔
        گرفتاری کے دوران انھیں فوج کے عقوبت خانوں میں شدید جسمانی اور ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے وہ جسمانی طور پر انتہائی کمزور اور لاغر ہو گئے اور نفسیاتی اور ذہنی دباؤ کا شکار بھی رہے۔
        سنہ 1985 میں آئینی حکومت کے قیام کے بعد موہیکا نے جو ’پےپے‘ کے نام سے مقبول ہیں، اپنے سخت گیر سوشلسٹ لہجے کو تبدیل کیا اور سیاست دان کے طور پر اپنے اہداف کے حصول کے لیے جدوجہد شروع کی۔
        موہیکا نے 13 برس قید میں گزارے
        موہیکا کو 13 سال مسلسل قید کے بعد سنہ 1985 میں رہا کیا گیا تھا۔
        ایک ایسے خطے میں، جہاں نجی شعبے کو اکثر بائیں بازو کے سیاست دان معاشرے کے تمام سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل کی بنیاد قرار دیتے ہیں، وہاں موہیکا اور ان کی ’بارڈ فرنٹ کوئلیشن‘ جماعت نے اعتدال کی راہ اختیار کی۔
        یوروگوائے کے دارالحکومت مونٹی ویڈیو کے ایک سیاسی مبصر آسکر بوٹنیلی کا کہنا ہے کہ موہیکا کے خیالات گذشتہ 20 برس میں یکسر تبدیل ہو گئے ہیں۔ لیکن وہ ہمشیہ عام لوگوں کے لیے تشویش کا شکار رہے۔
        مونٹی ویڈو کے مضافات میں ایک فارم ہاؤس پر بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ انھیں سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت کرنا ہو گی تاکہ معیشت کا پہیہ چلتا رہے۔
        سادہ طرز زندگی کی وجہ سے دنیا بھر میں انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے
        کھیتیوں کے درمیان ایک غیر آباد فیکٹری کے قریب معمولی سے گھر کو وہ زرعی سکول میں بدلنا چاہتے ہیں۔
        انھوں نے کہا کہ وسائل کا ایک حصہ غریبوں اور کمزوروں کو دیا جانا چاہیے لیکن ہمیں سرمایہ دارانہ نظم کو مفلوج نہیں کرنا چاہیے، ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔‘
        عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2005 میں براڈ فرنٹ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے یوروگوائے کی بیرونی سرمایہ کاری میں 5.8 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔
        غربت کی شرح سنہ 2005 کے بعد سے اب تک 40 فیصد سے کم ہو کر 13 فیصد رہ گئی ہے۔
        حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس 34 لاکھ آبادی والے ملک میں گذشتہ 30 برس میں دولت کی تقسیم اتنی مساویانہ نہیں تھی جتنی آج ہے۔
        موہیکا، جن کی مدتِ صدارت مارچ میں ختم ہو رہی ہے، کہتے ہیں کہ یہ ان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
        ہوزے موہیکا کے ناقدین کی بھی کمی نہیں ہے جو ان کی بےڈھنگے طرزِ حکمرانی اور متضاد بیانات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
        ملک کے اندر کچھ لوگ ان پر ان کی طرز حکمرانی کی وجہ سے تنقید بھی کرتے ہیں
        بوٹنیلی کا کہنا ہے کہ موہیکا کے طور طریقوں سے لوگ بیزار ہو گئے ہیں اور اب وہ اس سے زیادہ چاہتے ہیں۔
        ماہرِ عمرانیات سانتیاگو کارڈوز کہتے ہیں کہ بیرون ملک ہوزے موہیکا کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے: ’لیکن ان کی حکومت ان کی طرح منظم نہیں ہے۔‘
        بہت سے لوگ انھیں صرف اس لیے پسند کرتے ہیں کہ وہ بہت مخلص ہیں اور بہت سادہ ہیں۔
        موہیکا پر کتاب لکھنے والے مصنف سرگیو اسرائیل کا کہنا ہے کہ حکومت چلانا نہیں بلکہ لوگوں کو سمجھنا اور ان کے دل کی بات کرنا ان کی بڑی خوبی ہے۔
        ایک تازہ ترین سروے کے مطابق موہیکا کی مقبولیت کا گراف 60 فیصد پر ہے۔
        ہوزے موہیکا صدر ہوتے ہوئے بھی اپنی پرانی سی گاڑی میں سفر کرتے ہیں
        گو کہ آئین کی وجہ سے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے لیکن وہ سیاست میں ایک اہم کردار ادا کرتے رہیں گے۔

        موہیکا کا المیہ

        اپنی صدارت کے دوران موہیکا نے بہت سی انقلابی سیاسی اور سماجی اصلاحات کیں جن میں سنگ میل کا درجہ رکھنے والا وہ قانون بھی شامل ہے جس کے تحت ملک میں بھنگ کی پیدوار کو قومیا لیا گیا تھا۔
        اس قانون کو لوگ ’مطلق العنانیت‘ قرار دیتے ہیں کیونکہ اس کے تحت بھنگ کی خریداری پر ایک حد متعین کر دی گئی ہے اور بھنگ پینے والوں کو سرکاری رجسٹر میں اندراج کرانا پڑتا ہے۔
        اس معاملے میں موہیکا ان سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ لوگ درست ہیں: ’وہ میرے بچے ہیں اور میں ان کو کوئی ایسا تحفہ نہیں دے سکتا کہ وہ نشے کے عادی بن جائیں اور نشہ پی پی کر ان کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔‘
        ایک ’ٹیک اوے‘ میں کام کرنے والے پبالو المیرو صدر سے اتفاق کرتے ہیں۔ مونٹی ویڈو کے ساحل پر کش لگاتے ہوئے انھوں نے کہا: ’ریاست کا کام ہے کہ وہ مختلف چیزوں کو کنٹرول کرے۔ یہ ہمارے اپنے مفاد میں ہے۔‘
        صدارتی انتخاب میں شامل دونوں امیدوار اقتدار میں آنے کے بعد شاید اس قانون کو بدلنا چاہیں۔ لوئس لکالے پو جو دائیں بازو کی جماعت نیشل پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں وہ اس قانون کی کھلی مخالفت کرتے ہیں جبکہ صدر موہیکا کی اپنے جماعت براڈ فرنٹ کے امیدوار تباہے وازکوز بھی اس پر سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔
        ایک سیاسی مبصر کنزانی کا کہنا ہے کہ جو بھی ان کی جگہ لے گا اس کے لیے عالمی سطح پر ان کی طرح کی پذیرائی حاصل کرنا آسان نہ ہوگا۔

        سادہ زندگی

        انھوں نے بھنگ کی کاشت کو قومیا لیا تھا
        کنزانی نے کہا کہ موہیکا نے ’دنیا کے غریب ترین صدر‘ ہونے کی جو شہرت حاصل کی ہے اس کی یوروگوائے کی گذشتہ کئی دہائیوں کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
        ماہرعمرانیات سنتیاگو کارڈوزو کے مطابق ان کا سادہ رہن سہن اور طرز زندگی کی لوگ تعریف تو کرتے ہیں لیکن وہ اسے اپنانا پسند نہیں کریں گے۔
        کارڈوزو کا کہنا تھا کہ وہ قرون وسطیٰ کے دور کے کسی سادھو کا جدید یوروگوائن روپ ہو سکتے ہیں اور ان پر ایک اچھی فلم بن سکتی ہے۔
        موہیکا کو بھی اس کا پوری طرح احساس ہے۔
        اپنے کمرے میں جسے ابھی تک لکڑیاں جلا کر گرم رکھا جاتا ہے، مخصوصی کالی جیکٹ اور پیروں میں معمولی چپل پہنے بیٹھے موہیکا کا کہنا تھا: ’وہ میری سادگی کی تعریف تو کریں گے، لیکن وہ میری طرح رہنا پسند نہیں کریں گے۔ میں کسی ویرانے کے بھوت کی مانند ہوں۔‘

        RELATED POSTS